Results 1 to 2 of 2

Thread: Û”2035Ø¡ Û”Û”Û”Û”Û” Ù…Ø+مد اظہار الØ+Ù‚

Hybrid View

Previous Post Previous Post   Next Post Next Post
  1. #1
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Thumbs up Û”2035Ø¡ Û”Û”Û”Û”Û” Ù…Ø+مد اظہار الØ+Ù‚

    Û”2035Ø¡ Û”Û”Û”Û”Û” Ù…Ø+مد اظہار الØ+Ù‚

    قبر کھودی جا Ú†Ú©ÛŒ تھی۔گور Ú©Ù† منتظر تھے۔ میت Ú©Û’ ورثا‘اعزہ Ùˆ اقارب ‘ جنازہ Ù¾Ú‘Ú¾ Ú†Ú©Ù†Û’ Ú©Û’ بعد یہیں تھے۔ یہ بھی عجیب دردناک Ø+قیقت ہے‘ مرنے والے سے جتنی زیادہ Ù…Ø+بت ہو‘ اتنی ہی خواہش اپنے ہاتھوں سے مٹی ڈالنے Ú©ÛŒ ہوتی ہے۔ Ú©Ú†Ú¾ لوگ پھول بھی لائے تھے کہ قبر پر چڑھائیں Ú¯Û’Û”
    ایک سرکاری اہلکار جو وہاں موجود تھا‘ تدفین Ú©ÛŒ اجازت نہیں دے رہا تھا۔اس Ù†Û’ انتظار کرنے کوکہا تھا۔ سب Ø+یران تھے کہ اس اہلکار Ú©Ùˆ کس Ù†Û’ بھیجا ہے؟یہ تدفین Ú©Û’ عمل Ú©Ùˆ کیوں روک رہا تھا۔ سب اُس پر اپنی پریشانی اور تشویش کا اظہار کر Ú†Ú©Û’ تھے۔مگر اہلکار Ú©Û’ چہرے پر ایک سرکاری بے نیازی Ú©Û’ علاوہ Ú©Ú†Ú¾ نہ تھا۔ وہ ہر بار ایک ہی جواب دیتا کہ اوپر سے این او سی آنا ہے۔ اس Ú©Û’ بعد ہی تدفین Ú©ÛŒ اجازت ملے گی۔ کئی گھنٹے گزر جانے Ú©Û’ بعد ‘ جب لوگوں Ú©Û’ اعصاب جواب دینے Ù„Ú¯Û’ اور اس سے سخت لہجے میں بات Ú©ÛŒ گئی تو اس Ù†Û’ یہ ÙˆØ+شت ناک خبر دی کہ یہ قبرستان عالمی اداروں Ú©Û’ پاس رہن رکھا گیا ہے۔ اس Ú©Û’ عوض ملک Ù†Û’ قرضہ لیا تھا۔ قرضہ ادا نہ ہو سکا۔ نتیجے میں عالمی ادارے Ù†Û’ قبرستان پر اپنی ملکیت جتائی اور پٹواری Ù†Û’ اس Ú©ÛŒ ساری زمین عالمی ادارے Ú©Û’ نام کر دی۔ اب یہ عالمی ادارہ ہر قبر کا معاوضہ لیتا ہے اور اس Ú©Û’ بعد این او سی جاری کرتا ہے۔ بس اسی این او سی کا انتظار ہے!
    یہ 2035 Ø¡ ہے۔ ہم آپ Ú©Ùˆ چودہ برس پیچھے یعنی 2021 Ø¡ میں لیے چلتے ہیں۔ اُس سال دو ایسے واقعات ظہور پذیر ہوئے کہ ملک Ú©ÛŒ قسمت ہی بدل گئی۔ پہلا واقعہ یہ ہوا کہ ہمارا ایک ہوائی جہاز جو مسافر Ù„Û’ کر پاکستان واپس آرہا تھا‘ ملائیشیا Ú©Û’ ہوائی اڈے پر ضبط کر لیا گیا۔ مسافر ÙˆÚº Ú©Ùˆ جہاز سے اتار دیا گیا۔ جہاز Ú©ÛŒ مالک کمپنی سے کرائے کا کوئی جھگڑا تھا ‘ ملائیشیا Ú©ÛŒ عدالت Ù†Û’ جہاز Ú©Û’ بارے میں فیصلہ دیا اور مقامی اتھارٹی Ù†Û’ جہاز قبضے میں Ù„Û’ لیا۔ مسافروں Ú©ÛŒ وہی گَت بنی جو ہمارے ایک جاننے والے شیخ دوست Ú©ÛŒ بیوی بچوں Ú©ÛŒ بنی تھی۔ وہ اسلام آباد سے‘ اپنی فیملی Ú©ÛŒ معیت میں اپنے آبائی قصبے جاتا تو بس پر جاتا۔ ایک بار اس Ù†Û’ Ú©Ú†Ú¾ معاشی خوشØ+الی دیکھی تو ایک Ù¾Ú© اَپ ڈبہ خرید لیا اور گھر والوں Ú©Ùˆ خوش خبری دی کہ آئندہ بس پر دھکے کھانے Ú©Û’ بجائے اپنی سواری پر جایا کریں Ú¯Û’Û” فیملی خوش ہوئی کہ اپنی سواری کا مزہ ہی اور ہے۔ جہاں چاہیں چائے پانی Ú©Û’ لیے رُک جائیں۔ جس دن جانے کا پروگرام تھا ‘ بچے صبØ+ ہی سے خوش تھے۔ ڈبے میں سوار ہو کر آبائی قصبے پہنچے۔ ڈبے Ú©Ùˆ گھر Ú©Û’ سامنے Ú¯Ù„ÛŒ میں کھڑا کیا گیا۔ گھر والے بھول گئے تھے کہ شیخ بچہ شیخ ہی ہے۔ وہیں کسی Ù†Û’ ڈبہ خریدنے Ú©ÛŒ خواہش ظاہر Ú©ÛŒ اور جو قیمت لگائی وہ قیمت خرید سے تین ہزار روپے زیادہ تھی۔ شیخ بچے Ù†Û’ تین ہزار کا نفع دیکھا تو وہیں ‘ Ú©Ú¾Ú‘Û’ Ú©Ú¾Ú‘Û’ ڈبہ بیچ دیا۔ واپسی پرگھر والوں Ú©Ùˆ Ø+سبِ سابق بس Ú©Û’ ذریعے لایا۔ بیوی سارا راستہ کوستی رہی اور بُرا بھلا کہتی رہی۔ ضبط شدہ جہاز Ú©Û’ مسافروں Ú©Ùˆ متبادل فلائٹس کافی خواری Ú©Û’ بعد ملیں۔ Ú©Ú†Ú¾ Ú©Ùˆ دبئی اور Ú©Ú†Ú¾ Ú©Ùˆ قطر Ú©Û’ راستے!اس اثنا میں مبینہ طور پر کھانا ملا نہ رہائش!Ú©Ú†Ú¾ کا سامان ہی نہ آیا۔دوسرا بڑا اور تاریخی واقعہ یہ پیش آیا کہ پاکستان Ú©Û’ سب سے بڑے پارکوں میں سے ایک پارک‘ فاطمہ جناØ+ پارک‘ Ú©Ùˆ Ø+کومت Ù†Û’ گروی رکھ کر پانچ سو بلین روپوں کا قرضہ بانڈز Ú©ÛŒ صورت میں لیا۔ اس پارک کا رقبہ 759 ایکڑ یعنی Ú†Ú¾ ہزار کنال سے زیادہ کا تھا۔
    یہ آخری قرقی نہ تھی۔اس Ú©Û’ بعد یہ سلسلہ تھم نہ سکا۔ ایک ایک کر Ú©Û’ سارے پارک گروی رکھ دیے گئے۔ ایک قرضہ اتارنے Ú©Û’ لیے دوسرا قرضہ لینا پڑتا۔دوسرے قرضے Ú©Û’ لیے Ú©Ú†Ú¾ اور رہن رکھنا پڑتا۔ معاشی سرگرمی تو ملک میں تھی کوئی نہیں۔ قرض Ú©ÛŒ Ù…Û’ پینے Ú©Û’ علاوہ چارہ کوئی نہ تھا۔پارکوں Ú©Û’ بعد کھیل Ú©Û’ میدانوں Ú©ÛŒ باری آئی۔ پھر تعلیمی اداروں Ú©ÛŒ عمارتیں گروی رکھی جانے لگیں۔ یہ بہت خطرناک ثابت ہوا۔ عالمی اداروں Ù†Û’ سکولوں کالجوں Ú©Û’ نصاب اپنی مرضی سے وضع کیے۔ فیسیں ڈبل کر دیں۔مØ+ب وطن اساتذہ Ú©Ùˆ نوکریوں سے فارغ کر دیا گیا۔ طلبہ Ùˆ طالبات اور ان Ú©Û’ والدین Ù†Û’ اØ+تجاجی جلوس نکالے۔ ان Ú©Û’ خلاف مقدمے دائر کردیے گئے۔ Ú©Ú†Ú¾ طلبہ Ú©Ùˆ نکال دیا گیا۔ بغاوت رفتہ رفتہ فرو ہو گئی۔ پالیسی انہی Ú©ÛŒ چلنی تھی جن Ú©Û’ پاس عمارتوں Ú©ÛŒ ملکیت تھی!پھر ہسپتال‘ پہلے بڑے بڑے پھر چھوٹے‘ گروی رکھ دیے گئے۔ اس Ú©Û’ نتائج جو عوام Ú©Ùˆ بھگتنا Ù¾Ú‘Û’ خوفناک تھے۔ اب گراں ترین ادویات خریدنا پڑتی تھیں۔ میڈیکل آلات بھی مالکوں Ú©ÛŒ پسندیدہ کمپنیوں سے خریدنا ہوتے تھے۔
    قرضے مزید لیناپڑ رہے تھے۔ کسی ابوالہول قسم Ú©Û’ درباری Ù†Û’ Ø+کومت Ú©Ùˆ تجویز دی کہ عبادت گاہیں کثیر تعداد میں ہیں اور بڑی بڑی! انہیں رہن رکھاجائے۔ مگر باقی اہل دربار Ù†Û’ سخت مخالفت Ú©ÛŒ اور عوام Ú©Û’ رد عمل سے ڈرایا۔یوں Ø+کومت Ù†Û’ یہ اØ+مقانہ تجویز رد کر دی۔ بڑی بڑی شاہراہیں ‘ ہوائی اڈے اور ریلوے سٹیشن پہلے ہی رہن رکھے جا Ú†Ú©Û’ تھے۔ آخر یہ Ø·Û’ پایا کہ شہروں اور قصبوں Ú©Û’ Ú¯Ù„ÛŒ Ú©ÙˆÚ†Û’ گروی رکھ دیے جائیں۔ رکھ دیے گئے۔ ان Ú©Û’ عوض قرضے بھی مل گئے مگر نئے مالکوں Ù†Û’ گلیوں‘ Ú©Ùˆ Ú†ÙˆÚº Ú©Û’ نام تبدیل کرا دیے۔ غالب سٹریٹ ‘ ابراہام لنکن سٹریٹ بن گئی۔ فیض روڈ ‘ ایمرسن روڈ میں بدل گئی۔ عالم خان روڈ کا نام ‘جانسن روڈ ہو گیا۔مØ+لّوں Ú©Û’ Ù…Ø+لّے راتوں رات اپنی تاریخ‘ اپنی ثقافت سے Ù…Ø+روم ہو گئے۔ سچ ہے جس کا مال‘ اسی Ú©ÛŒ ثقافت! جس کا زر‘ اسی کا زور ! پھر ایک دن پاکستانی ویزا گروی رکھ دیا گیا۔ یعنی اس Ú©Û’ عوض جس ملک Ù†Û’ قرض دیا اُس ملک Ú©Û’ مکین بغیر ویزا کے‘ آجا سکیں گے۔ابتدا میں تو یہ شرط بے ضرر سی Ù„Ú¯ÛŒ مگر رفتہ رفتہ اس Ú©Û’ عواقب آشکار ہونا شروع ہوئے۔ سفید فام اجنبیوں سے بازار Ú†Ú¾Ù„Ú©Ù†Û’ Ù„Ú¯Û’Û” پلازے‘ دکانیں‘ مال‘ مارکیٹیں ان بدیسیوں Ù†Û’ خرید لیں اور رہی سہی معیشت ‘ گھر بیٹھے ہی بے گھر ہو گئی۔
    اب Ø+ال یہ ہو گیا کہ روزمرہ Ú©Û’ اخراجات Ú©Û’ لیے بھی سرکار Ú©Û’ پلے Ú©Ú†Ú¾ نہ رہا۔ مزید قرض لینا ناگزیر ہو گیا۔سٹیٹ بینک پہلے ہی ہاتھ Ú©Ú¾Ú‘Û’ کر چکا تھا۔ عام کمرشل بینک کب Ú©Û’ دیوالیہ ہو Ú†Ú©Û’ تھے۔ دربار میں مسئلہ اٹھایا گیا۔ کئی دن سوچ بچار ہوتی رہی۔ یہ تجویز بھی زیر غور آئی کہ قصرِ صدارت ‘ وزیر اعظم ہاؤس اور گورنروں Ú©ÛŒ قیام گاہیں رہن رکھ دی جائیں مگر اس پر بھی عوام Ú©Û’ رد عمل سے خوف آیا اور یہ تجویز مار دی گئی۔ ایک جغادری قسم Ú©Û’ درباری Ù†Û’ یہ تجویز اپنی چادر سے نکالی کہ قبرستان گروی رکھ دیے جائیں۔جب اس تجویز Ú©ÛŒ اس Ù†Û’ وضاØ+ت کہ تو بے تØ+اشا داد دی گئی۔ واہ واہ! مرØ+با Ú©Û’ ڈونگرے برسنے Ù„Ú¯Û’Û” اس Ù†Û’ بتایا کہ ایک تو قبرستانوں Ú©ÛŒ تعداد Ø+د سے زیادہ ہے۔ ہر قصبے میں ‘ ہر شہر میں کئی کئی قبرستان ہیں۔ ہر گاؤں میں Ú©Ù… از Ú©Ù… ایک تو ضرور ہے۔ یوں قرضے Ú©Û’ رقم بھاری ملے Ú¯ÛŒ اور Ú©Ú†Ú¾ عرصہ تک مزید قرض Ú©ÛŒ ضرورت نہیں Ù¾Ú‘Û’ گی۔دوسرا نکتہ یہ تھا کہ لوگ یہی سمجھیں Ú¯Û’ کہ قبرستانوں میں مردے ہی تو Ù¾Ú‘Û’ ہیں‘ رہن رکھ بھی دیے گئے تو کیا فرق Ù¾Ú‘Û’ گا۔ یوں پارک سے شروع ہونے والا رہن کا کھیل قبرستانوں تک پہنچ گیا۔ اب ہر میت Ú©ÛŒ تدفین کا این او سی سمندر پار سے آتا ہے۔



    2gvsho3 - Û”2035Ø¡ Û”Û”Û”Û”Û” Ù…Ø+مد اظہار الØ+Ù‚

  2. #2
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Default Re: Û”2035Ø¡ Û”Û”Û”Û”Û” Ù…Ø+مد اظہار الØ+Ù‚

    2gvsho3 - Û”2035Ø¡ Û”Û”Û”Û”Û” Ù…Ø+مد اظہار الØ+Ù‚

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •